Allah pak ka دیدار

in #new7 years ago

دیدارِ الٰہی:

غوث الاعظم حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں:

جو شخص اللہ کو پہچانتا ہی نہیں وہ اللہ کی عبادت کس طرح کر سکتا ہے۔''

حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

جو شخص اللہ کہنے میں اللہ کی ذات کی معرفت و حقیقت سے آگاہ و آشنا نہیں وہ اللہ کی حقیقی یاد سے غافل ہے۔ (سلطان الوھم)۔

اللہ کو دیکھ کر' پہچان کر عبادت کرنے میں جو خشوع و خضوع اور حضوری قلب کی کیفیت حاصل ہوتی ہے وہ دیکھے بغیر حاصل ہونا ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت اور عبادات کی فرضیت میں تیرہ سال کا وقفہ ہے' اس دوران حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو معرفتِ الٰہی کی تعلیم دی۔ جب یہ تعلیم مکمل ہوئی تو ظاہری عبادات فرض کی گئیں تاکہ صحابہ رضی اللہ عنھم کی عبادات بے روح نہ ہوں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ---- (الذّٰریٰت-٥٦)

ترجمہ: ''اور ہم نے پیدا کیا انسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لیے'' اس آیت کی تفسیر

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس آیت کی تشریح یوں بیان فرمائی ہے۔ وما خلقت الجن والانس الا لامرھم بالعبادۃ۔ یعنی میں نے جن و انس کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ میں انہیں حکم دوں کہ وہ میری عبادت کریں۔ انسان کو عقل و فہم، اعتبار و اختیار کی جو نعمتیں ارزانی کی گئی ہیں ان کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی جبین نیاز اسی ذات کے سامنے جھکائے جس نے اسے پیدا فرمایا اور اپنے گوناگوں احسانات سے اسے مالا مال فرمایا۔ اب اگر وہ کسی اور کی عبادت کرنے گلے جو نہ اس کا خالق ہے اور نہ اس کا پروردگار ہے یا بالکل الحاد و دہریت کا راستہ اختیار کر لے تو گویا وہ اپنی فطرت سے جنگ آزما ہے اور اپنی طبع سلیم کو مسخ کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔

صوفیاء کے نزدیک بھی عبادت سے مراد معرفت ہی ہے کیونکہ تمام عبادات کا مقصد اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے۔ جو عبادت انسان کو اللہ کے قریب لے جا کر اس کی پہچان یعنی معرفت نہیں دلاتی وہ عبادت نہیں۔ چنانچہ اس آیت میں (لِیَعۡبُدُوۡنِ) سے مراد عبادت کی اصل روح یعنی ''معرفت'' کا حصول ہے۔ صرف عبادات کے لیے تو اللہ کے فرشتے ہی کافی تھے۔ اللہ کسی انسان کے نماز روزے کا محتاج نہیں۔ ہاں وہ یہ ضرور چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے قرب' وصال اور معرفت کی طلب کریں جیسا کہ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

حدیث قدسی: کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق

ترجمہ : میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں پس میں نے مخلوق کو پیدا کیا تاکہ میری پہچان ہو۔

انسان کی تخلیق کا اصل مقصد اور اس کی عبادات کا مغز اللہ کی پہچان ہے' جس نے اس مقصد سے رو گردانی کی بے شک وہ بھٹک گیا۔ نہ دین ہی اس کا ہوا نہ دنیا۔ مرنے کے بعد قبر میں انسان سے پہلا سوال یہ پوچھا جائے گا (مَن رَّبُّکَ) بتا تیرا رب کون ہے؟جس نے اپنے ربّ کی پہچان ہی حاصل نہ کی ہو گی وہ اس سوال کا کیا جواب دے پائے گا۔ اگر اس کا جواب یہ ہوگا کہ کائنات اور تمام مخلوق کا خالق میرا رب ہے تو یہ جواب تو یہود و نصاریٰ کا بھی ہوگا پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا امتی ہونے کی فضیلت اُسے کیسے حاصل ہوگی؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُمت اسی لیے خیر الامم ہے کہ اس کے لیے اللہ کے دیدار و وصال کی راہیں کھول دی گئی ہیں۔

قرآن پاک میں کئی آیات میں اللہ سے ملاقات (معرفت و دیدار) کی طرف اُمت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو راغب کیا گیا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ ۚ---- ( الاِنشِقَاق-٦)
ترجمہ: اے انسان تو اﷲ کی طرف کوشش کرنے والا اور اس سے ملاقات کرنے والا ہے۔

اَتَصۡبِرُوۡنَ ۚ وَ کَانَ رَبُّکَ بَصِیۡرًا ---- (الفرقان-٢٠)
ترجمہ:آیا تم صبر کئے بیٹھے ہو؟ (اور اﷲ کی طرف بڑھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہو؟ حالانکہ تمہارا رب تمہاری طرف دیکھ رہا ہے اور تمہارا منتظر ہے۔

مَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا ----(الکہف-١١٠)
ترجمہ: جو شخص اپنے رب کا لقاء (دیدار)چاہتا ہے اُسے چاہیے کہ وہ اعمالِ صالحہ اختیار کرے۔

دنیا میں انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کے دیدار کی آرزو بھی دل میں رکھتا ہے اور بہت دیر تک اس سے ملاقات کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جو انسان اللہ سے محبت کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن اس محبت کے اظہار کے لیے خالی سجدوں کو کافی سمجھ لیتا ہے اور اس کے دیدار اور وصال کی خواہش ہی نہیں رکھتا بیشک وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ اطۡمَاَنُّوۡا بِہَا وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنۡ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوۡنَ
اُولٰٓئِکَ مَاۡوٰىہُمُ النَّارُ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ----(یونس-٧-٨)

ترجمہ: بے شک جو لوگ لقائے الٰہی (دیدار ) کی خواہش نہیں کرتے اور دنیا کی زندگی کو پسند کر کے اس پر مطمئن ہو گئے اور ہماری نشانیوں سے غافل ہو بیٹھے' انہیں ان کی کمائی سمیت جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا۔ دیدارِ الٰہی سے انکاری لوگوں کے انجام سے بھی آگاہی فرما دی۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ وَ لِقَآئِہٖ فَحَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فَلَا نُقِیۡمُ لَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَزۡنًا -(الکہف-١٠٥)
ترجمہ: جن لوگوں نے اپنے رب کی نشانیوں اور اس کے لقاء(دیدارِ الٰہی) کا انکار کیا ان کے اعمال ضائع ہو گئے۔ ہم ان کے لئے قیامت کے دن کوئی تول قائم نہ کریں گے ( یعنی بغیر حساب کے انہیں جہنم رسید کیا جائے گا)۔

قَدۡ خَسِرَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ اللّٰہِ---(الانعام-٣١)
ترجمہ: بے شک وہ لوگ خسارے میں ہیں جنہوں نے لقائے الٰہی( دیدار) کو جھٹلایا۔

خوب یادرکھو وہ اپنے ربّ کے لقاء (دیدار) پر شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور یاد رکھو بیشک وہ (اللہ تعالیٰ ) ہر شے کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ (القرآن)

کئی احادیث اور اولیاء کرام کے اقوال بھی دیدارِ الٰہی کے ذریعے اللہ کی پہچان اور معرفت حاصل کرنے پر دلالت کرتے ہیں۔

حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا قریب ہے وہ وقت جب تم اپنے پروردگار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔'' مشکوٰۃ

ایک اور روایت میں ہے کہ ''ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس بیٹھے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چودھویں کے چاند کو دیکھ کر فرمایا جس طرح تم چودھویں کے چاند کو دیکھ رہے ہو اسی طرح تم پروردگار کو دیکھو گے اور خدا تعالیٰ کو دیکھنے میں تم کوئی اذیت اور تکلیف محسوس نہیں کرو گے۔ ''(الفتح الربانی)۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا ''میرے دل نے اپنے رب کو نورِ ربی کے واسطہ سے دیکھا۔' ' (سِرّالاسرار)۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا فرمان ہے ''میں اپنے رب کی اس وقت تک عبادت نہیں کرتا جب تک کہ اُسے دیکھ نہ لوں۔''

غرضیکہ اللہ کے دیدار کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی پہچان اور معرفت حاصل کرنا اس کی محبت کا اولین تقاضا اور تمام عبادات کی جان ہے۔ دینِ اسلام کی بنیاد توحید یعنی کلمہ طیبہ
(لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) کی زبانی تصدیق تو بہت آسان ہے لیکن یہ بنیاد اس وقت تک ادھوری ہے جب تک قلب اس کی تصدیق نہ کرے اور قلب کسی بات پر یقین تب تک نہیں کرتا جب تک مشاہدے کے ذریعے اسے اچھی طرح جانچ اور پرکھ نہ لے۔ چنانچہ قلبی تصدیق تبھی ممکن ہے جب اللہ تعالیٰ کو جان کر پہچان کر پورے یقین کے ساتھ واحد مانا جائے۔ اسی طرح نماز مومن کی معراج تبھی بنتی ہے جب معرفتِ الٰہی حاصل کرنے کے بعد نماز یوں ادا کی جائے گویا اللہ کو دیکھ کر ادا کی جارہی ہے۔

حضرت غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ الفتح الربانی میں واضح طور پر فرماتے ہیں ''ہمارا پروردگار موجود ہے اور دیکھا جا سکتا ہے۔''

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو جسم اور مکان سے پاک ہے اسے دیکھنا کیسے ممکن ہے؟ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس کا جواب نہایت آسان الفاظ میں دیتے ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں ''صاحبِ یقین و معرفت مسلمان کے لیے دو ظاہری اور دو باطنی آنکھیں ہیں۔ پس وہ ظاہری آنکھوں سے زمین پر بسنے والی مخلوق کو دیکھتا ہے اور باطنی(روحانی ترقی کے بعد) آنکھوں سے آسمان پر بسنے والی مخلوق کو دیکھتا ہے۔ اس کے بعد اس کے دل سے تمام پردے اٹھا دیئے جاتے ہیں پس وہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کو بلاشبہ و بلاکیف دیکھتا ہے۔ پس وہ مقرب و محبوبِ خدا بن جاتا ہے۔'' (الفتح الربانی)۔

یہ حقیقت ہر باشعور انسان پر عیاں ہے کہ انسان کا ایک ظاہری جسم ہے جو دیکھا جاسکتا ہے اور ایک باطن ہے جسے روح' دل یا قلب' اندر کا انسان یا ضمیر کہا جاتا ہے اور جو عام لوگوں سے چھپا ہوا ہے۔ یہ باطنی انسان ہی اصل انسان ہے۔ ظاہری جسم صرف اس باطنی انسان کے لیے اس دنیا میں لباس کا کام دیتا ہے۔ یہ جسم اسی دنیا میں تخلیق ہوتا ہے اور باطنی انسان یا روح کے اپنے اصل وطن واپسی کے وقت اسی دنیا میں رہ جاتا ہے۔ وہ انسان جو اللہ کی طرف سے آیا اور جسے واپس لوٹ کر اللہ کے ہاں جوابدہ ہونا ہے' باطن کا حقیقی انسان ہے (إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ)
(بے شک ہم اللہ کی طرف سے ہیں اور اللہ کی طرف ہی ہمیں لوٹ کر جانا ہے)۔ اللہ کا دیدار کرنا' اللہ کی معرفت اور پہچان حاصل کرنا اس باطنی انسان یا روح کا کام ہے کیونکہ اس کا تعلق اللہ سے ہے ۔جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ آدمؑ اور اولادِ آدم میں پھونکی گئی روح کے متعلق فرماتا ہے

وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ ---(الحجر-٢٩)
ترجمہ:'' اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی''

یہی روح اللہ کا قرب و دیدار حاصل کرنے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ اللہ کا دیدار بھی ظاہری آنکھوں نے بصارت سے نہیں بلکہ روح نے نورِ بصیرت سے کرنا ہے۔ جن کی روح نور بصیرت حاصل کر کے اللہ کا دیدار نہیں کرتی ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ وَ لٰکِنۡ تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ --(الحج-٤٦)

ترجمہ: پس یہ (ظاہری) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہیں جو سینوں میں ہیں۔

روح جب اللہ کے پاس موجود تھی تو اللہ کے دیدار میں مگن تھی لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس روحانی انسان کو اپنی پہچان کے امتحان کے لیے اس دنیا میں بھیجا تو اپنے جلوؤں کے نور اور انسان کے درمیان نفس کی دیوار حائل کر دی۔ انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ نفسانی خواہشوں کے جال سے نکل کر نفس کے ان حجابوں کو توڑے اور اپنے رب کا دیدار اور پہچان حاصل کرے۔ اللہ کے جلوؤں کا نور ہی وہ امانت ہے جو انسان کے قلب میں پوشیدہ ہے اور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا --(الاحزاب-٧٢)

ترجمہ: ''ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا۔ سب نے اس کے اٹھانے سے عاجزی ظاہر کر دی لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا بے شک وہ (اپنے نفس پر) ظالم اور (اپنی حقیقت سے) جاہل ہے۔

انسانی قلب (باطن) میں پوشیدہ یہ نورِ الٰہی اللہ کی امانت ہے جسے بروزِ قیامت واپس لوٹانا ہے۔ اس امانت کی حفاظت تبھی ممکن ہے جب باطنی یا روحانی انسان ترقی اور قوت حاصل کرے اور نفس کے پردوں کو توڑتے ہوئے اپنی ذات کے اندر ہی موجود اس نورِ الٰہی تک رسائی حاصل کرے۔ جب تک وہ اس امانت تک رسائی حاصل نہ کر لے' نہ اس کی اہمیت کو سمجھ سکتا ہے اور نہ اس کی حفاظت کر سکتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی لیے فرمایا ''جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں۔''کیونکہ ایمان دراصل اسی امانت کی حفاظت کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کامیابی کی ضمانت بھی نورِ الٰہی سے معمور قلب کی اصل حالت میں واپسی کو قرار دیا ہے۔

يَوْمَ لا يَنْفَعُ مَالٌ وَلا بَنُونَ ، إِلاَّ مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ ۔
سورة الشعراء -٨٨،٨٩۔

ترجمہ : اور قیامت کے دن مال اور اولاد کچھ نفع نہ دیں گے۔ بلکہ قلبِ سلیم ہی کام آئے گا۔ چنانچہ اللہ کی معرفت اور پہچان انسان کو اپنے ہی باطن میں پوشیدہ نورِ الٰہی کی امانت تک رسائی سے حاصل ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ -(- الذّٰریٰت-٢١)
ترجمہ :اور میں تمہاری سانس اور تمہاری جان کے اندر ہوں کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا۔

وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ -(قٓ-١٦)
ترجمہ:اور ہم تو شہ رگ سے بھی نزدیک ہیں۔ حدیثِ قدسی میں فرمایا

حدیث قدسی :
نہ میں آسمانوں میں سماتا ہوں نہ زمین میں لیکن بندہ مومن کے دل میں سما جاتا ہوں۔

قلب المومن عرش اللہ تعالٰی
ترجمہ: مومن کا قلب اللہ کا عرش ہے۔

اسی لیے اپنے رب کی معرفت کے لیے انسان کو اپنے باطن میں ہی سفر کرنا ہے اور اپنی ذات کی حقیقت سے اپنے رب کی حقیقت حاصل کرنا ہے۔ حدیث قدسی میں اللہ بیان فرماتا ہے

(من عرف نفسه فقد عرف ربه)
ترجمہ:''جس نے اپنی ذات کو پہچانا اس نے یقیناًاپنے رب کو پہچانا۔''

اپنی اسی حقیقی پہچان کو اقبالؒ نے خودی کا نام دیا ہے اور امت مسلمہ کو اس کی پہچان حاصل کرنے کا درس دیا۔

خودی میں گم ہے خدائی ، تلاش کر غافل
یہی ہے تیرے لیے اب صلاح کار کی راہ.

افسوس کا مقام یہ ہے کہ انسان اپنے ظاہری جسم کو پالنے 'سجانے اور ہر تکلیف و بیماری سے بچانے کے لیے تو ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اپنی پوری توجہ اس کی دیکھ بھال میں لگا دیتا ہے لیکن اپنے باطنی حقیقی انسان کی طرف اس کی کوئی توجہ ہی نہیں۔ روح جو اپنے رب سے ملاقات اور دیدار کے لیے بے چین رہتی ہے' انسان کی اس بے توجہی اور نفسانی و دنیاوی خواہشوں کے جال میں الجھے رہنے کی وجہ سے روح بیمار اور پژمردہ ہوجاتی ہے۔ انسان کی اندرونی بے چینی کی وجہ اس کی اپنی روح سے بے توجہی ہی ہے۔ جب روح پژمردہ ہوگئی تو نفسِ امارہ (جو برائی کا حکم دیتا ہے) کو انسان کے باطن پر غلبہ اور قوت حاصل کرنا آسان ہوگیا یوں نہ انسان کا باطن درست رہا نہ ظاہر۔ نتیجہ انفرادی و اجتماعی بربادی۔ رسالہ غوثیہ میں اللہ تعالیٰ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ سے فرماتا ہے: ''جو میری طرف باطن میں سفر کرنے سے محروم رہا میں اسے ظاہری سفر میں مبتلا کر دیتا ہوں۔ ''یعنی جب انسان اپنے باطن کو درست کر کے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا اور اپنی تمام تر توجہ باطن کی بجائے ظاہر پر رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ظاہری مشکلات میں الجھا دیتا ہے۔ ہمارے اردگرد کے ماحول کی بہتری کا دارومدار بھی اسی بات پر ہے کہ ہم اپنی باطنی درستی پر توجہ دیں کیونکہ جب باطن درست ہو جائے تو ظاہر از خود درست ہوجاتا ہے۔

لیکن باطن ذکر اسمِ اللہ ذات یعنی سلطان الاذکار ھُو ، تصورِ اسمِ اللہ ذات اور تصورِ اسمِ محمّد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بغیر نہ زندہ اور نہ ہی درست ہو سکتا ہے گویا ذکرِ ھُو اور تصورِ اسم اللہ ذات باطن کے بند تالے کو کھولنے والی کلید (چابی) ہے تصورِ اسمِ محمّد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کی کلید ہے بشرطیکہ یہ کسی مرشد کامل اکمل نور الہدیٰ سے حاصل ہوئی ہو۔

Coin Marketplace

STEEM 0.15
TRX 0.12
JST 0.025
BTC 54804.17
ETH 2344.02
USDT 1.00
SBD 2.37