بیت اللہ کو تھوڑنے کا کوشش کس طرح کی گئی
نجران اور یمن یہودی حکمران ضررنواز اس نے عسایؤں پر بہت زیادہ ظلم کیا تھا۔
ذرنواز نے اپنی حکومت کیلئے ایک ساخر رکھا تھا(حکمران اکثر جادو گر وغیرہ پر یقین رکھتے ہے، تووہم پرست ہوتا ہے ) کیونکہ یہ ظالم ہوتے ہیں اور ظالم توہم پرست ہوتا ہے۔
اس ذرنواز کا حکومت کا دارومدار بھی اس جادوگر پر depend تھا۔
جب وہ جادو گر بوڑھا ہوگیا تو اس ذرنواز نے کہا کہ اب میرے حکومت کا کیا ہوگا تو اس نے کہا کہ آپ مجھے ایک نوجوان لڑکا دیں کہ میں اس کو train کروں۔ تو اس نے ایک نوجوان لڑکا اسکو دیا اور کہا کہ یہ صبح آپکے ہا ں آیءں گا اور اپ اس کو اپنا فن دوں گے۔ راستے میں اس نوجوان کا ملاقات ایک مسیحی راہب کیساتھ ہوا۔ وہ اللہ والا ادمی تھا۔ پس وہ نوجوان صبح روزانہ روانہ ہو تا تھا اس ساحر کے اراداے سے مگر سارا دن اُس راہب کیساتھ گزارتا تھا۔ جب بادشاہ کو معلوم ہوا تو اُس نے پہلے اس راہب کو قتل کیا اور پھر اس لڑکے کو تیروں سے لوگوں کے سامنے مارتا تھا مگر اُس پر تیر کچھ اثر نہیں کرتا تھا۔ پس اُس لڑکے نے کہا کہ اگر مجھے مروانہ چاہتے ہو تو ایک کلمہ بولو کہ بسم ربِ ھذالغلام تو میں مر جاونگا۔ جب اس نے تیر مارا تو انکو تیر لگ گیا اور وہ مر گیا۔ جتنے بھی لوگ وہا ں کھڑے تھے انہوں نے مسیحت کو قبول کیا کیونکہ انہوں نے حقانیت کا موجزا دیکھ لیا۔اس پر بادشاہ کو اور غصہ اگیا۔اس نے ایک خندق trench کھودنے کو کہا اور اُس کو آگ سے بھر دیا، سارے minister بیھٹے تھے اس حندق کے اردگرد اور بادشاہ نے حکم دیا کہ جتنے بھی مسلمان ہیں انکو اس میں پھینک دیا جائے۔ اس میں ایک عورت اور اس کے ساتھ ایک بچہ تھا انکو جب آ گ میں پیھنک دیا تو اس نے ایک چیخ مارا اور اس کیساتھ وہ آگ باہر نکل آیااور جتنے بھی لوگ تماشاکیلئے بیھٹے تھے وہ سب ہلاک ہو گئے people of trenches اسکو کہتے ہیں۔ یہ تو انکا واقع تھا۔
یہیں ذرنواز بادشاہ جس نے اتنے ظلم ان مسیحی مسلمانوں پر کیں۔ تو یمن کیساتھ افریقہ میں حبشہ میں ابی سینیا عسائی حکومت نے Retailation کیا۔ کہ یہ سزا تو انکو دین کی بنیاد پر دیا گیا ہئے لہذا اس حکومت نے اس پر حملہ کیا۔ اور اسکے حکومت کا کاتمہ کیا۔ 525 ء میں اس علاقے پر ابی سینیا کا حکومت قائم ہوا۔ روم کا سلطنت اس وقت کا super power تھا اُ س نے عیسائی حکومت ابیسنیین کو بحری بیڑا بھی دیا۔ اور 70 ہزار آرمی کیساتھ انکا help اور support بھی کیا۔
مگر بنیادی ہر جگہ پر معیشت کا ہو تا ہے sources and resources یہ مذہب کا رنگ تو ویسی motivation کیلئے ہوتا ہے اور بنیادی مسئلہ کوئی اور ہوتا ہے۔ یہود یہودی مذہب کا رنگ دیتا ہے، مسلمان اسلام کا، عسائی عسائیت کا وغیرہ مگر اصل مسئلہ معیشت کا ہوتا ہے۔
رومی جب بھی شام پر قابض تھے وہ east Aferica, india, and indonisia پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ یہ تین وہ علاقے تھے جس پر عرب کے تاجر قابض تھے اور انڈونشیاء تو عرب تاجر وں کی وجہ سے مسلمان ہوا ہے۔ اس مقصد کیلئے قیصر روم نے ایک بڑا فوج تیار کیا اور حملے کا ارادہ کیا۔ یہ بحری راستے پر اگیا تاکہ سمندر کا راستہ بند کر لیا جائے اور اپنا بحری بیڑا بحیراقدزن red sea تک لایا۔ عرب کا سمندرع راستہ اِس کے کنٹرول میں اگیا اور عرب کیلئے صرف بری راستہ تجارت کیلئے رہ گیا۔
اس بر ی راستے کیلئے ابی سینیا کے حکومت کا ملگرتیا کیا۔ ابیسینیا کا ایک گورنر ابرحہ ابشرم اور ایک گورنر اریات ، ان دونو ں کے درمیان ایک داخلی جنگ پیداہوا۔اور ابرحہ غالب ہوگیا اور اریات نے شکست کھائی۔ ابرحہ نے ابیسینیا کا بادشاہ اس پر قائل کیا کہ مجھ کو یمن کا حکمران بنا لیا جائے۔ ظاہری طور پر یہ حبشہ کے بادشاہ کا ماتحت تھا مگر عملا یہ خود مختیار حکمران تھا۔ ابرحہ سن 543ء میں اس نے یمن کے علاقے میں ایک ڈیم بنالیا۔ جس ذکر سورتہ سباء میں ہیں۔ 400 میل کا بارانی ڈیم باغات ہی باغات تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہے کہ یہ میرا احسانات تھا کہ یہ کنٹرول میں نے دیا تھا جب یہ باغی ہوئے تو اللہ فرماتے ہے کہ اس ڈیم میں سوراخ کرکے تباء کر دیا ۔۔۔۔۔
آیت 16 1715 سورت سباء۔ ترجمہ ۔۔۔۔ حقیقت یہ کہ سبا کیلئے خود اس جگہ ایک نشانی موجود تھی جہاں وہ رہا کرتے تھے، دایءں اور بائیں دونو طرف باغوں کے دو سلسلے تھے۔ اپنے پروردگار کا دیا ہو ا رزق کھاؤ اور اس کا شکر بجا لاؤ، ایک تو شہر بہترین، دوسرے پروردگار بخشنے والا۔
ترجمہ۔۔۔ پھر بھی انہوں نے ہدایت سے مو ڑ لیا۔ اس لئے ہم نے ان پر بند والا سیلاب چھوڑدیا۔ اور انکے دونوں طرف کے باغوں کو ایسے دو باغوں میں تبدیل کیا جو بد مزہ پھلوں، جھاؤ کے درختوں اور تھوڑی سی بیروں پر مشتمل تھے۔
ترجمعہ۔۔۔۔۔ یہ سزا ہم نے ان کو اس لئے دی کہ انہوں نے نا شکری کی روش اختیار کی تھی، اور ایسی سزا ہم کسی اور نہیں، بڑے بڑے ناشکروں ہی کو دیا کرتے ہیں۔
اس کو کہتے ہیں صدی معروف اور یہ ڈیم 543 میں مکمل ہوگیااور اسکے افتتاخ کیلئے ابیسینیا کے بادشاہ کے بجائے دعوت قیصر روم کو دیا۔ ابرھہ اس پر ایک sign board بھی لگا دیا۔ قیصر روم جس دعوت پر اجائے، خسرو پرویز بھی اگیا اس افتتاخ کیلئے۔ اس کا معنیٰ یہ ہو کہ ابرحہ کا status تو قائم ہوا۔ جب قیصر روم اگیا تو انکا تسلط یمن پر مضبوط ہوگیا۔ اب وہ اصل مقصد کی طرف متوجہ ہوا کہ آ تجارت قبضہ کس طرح کروں گا۔
چونکہ عرب کے تجارت میں بڑا دخل بیت اللہ کا تھا سورت قریش میں ذکر ہیں اتا ہے۔ جتنے بھی قافلے تھے وہ راستے میں لوٹ دیں جاتے مگر مکہ کا قافلہ ہوتا تو اس کو کوئی بھی کچھ نہیں کہتا(چھوڑ دیتا تھا) چونکہ یہ اخترام انکو بیت اللہ کی وجہ سے ملا تھا۔ لہذا ابرحہ اس نئے سنعا / سنہا ( یہ یمن کا مشہو ر شہر ، capital ) میں ایک بڑا گرجہ کو تعمیر کیا۔ اور حبشہ کے بادشاہ کو خط لکھا کہ میں عرب کے حطے سے حج یمن کو transfer کرنا چاہتا ہو۔جب عرب کو پتہ چلہ تو ایک قریشی اشتعال میں اگیا وہ اس وقت مکہ سے روانہ ہوگیا اور سنعا پہنچ گیا رات کو اس سے گرجہ میں اندر گیا اور وہا ں پیشاب کرکے گرجہ کے دیواروں کو گندا کیا۔ ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ ہزار نوجوان تھے وہ گئے اور وہاں پیشاب کرکے گرجہ کو آگ لگا دیا۔ 571ء میں اُس نے 60 ہزار فوج کو تیار کیا اور 13 یا 9 ہاتھی کو تیار کیا تاکہ بیت اللہ کو ختم(تھوڑ) کردیں۔ راستے میں یمن کا سردار ذونَفر نام تھا ان کا جب ان کو پتہ چلا تو اُس نے راستے میں مزاحمت شروع کیا مگر وہ گرفتار ہو گیا۔ بنوالہثم ایک قبیلا ہے اس کا سردار نوفل ابن خبیب نے مقابلہ کیلئے نوجوان اور فوج کو نکال کر ابرحہ کیساتھ مقابلہ کیا مگر وہ بھی گرفتار ہوگیا۔
طائف کے نزدیک بنو ثقیب قبیلہ کا ایک ادمی ابولاغال(چونکہ ابرحہ کو راستہ معلوم نہیں تھا کہ مکہ کس طرف ہیں) کو hire کیا۔ ابولاغال اُس کیساتھ راستے میں روان تھا کہ تقریبا 48 میل کے فاصلے کی دوریپر مکہ سے وہ راستے میں مر گیا۔ وہا ں پر ان کا قبر تیار کیا مکہ کے اہل ہر سال اس کے قبر پر جا کر سنگھ بھاری کرتا تھا۔
ابرحہ تہامہ کے علاقہ اور قریش کے موشی کو راستے میں لوٹتے تھے۔ محمدﷺ کا داد عبدلمطلب صاحب اس کا بھی تقریبا 200 اونٹ کو گرفتار (لوٹ) کرکے اپنے ساتھ رکھ لیا ۔ اور پھراپنا ایک قاصد اہل کو بھیج دیا کہ جنگ مت کرو ہم جنگ کیلئے نہیں آئیں ہیں ہم صرف بیت اللہ کو ختم کرنے کیلئے ائیں ہیں۔ پس ہم کو راستہ دیں کہ ہم اسکو ختم (ویران) کردیں پھر ہم واپس جائیں گیں۔ اور اپنے قاصد کو یہ بھی کہا کہ اگر مکہ والوں کا کوئی بڑا ادمی یعنی سردار ہو اور وہ میرے ساتھ بات کرنا چاہتا ہو تو ان کو لے آؤ۔ عبدالمطلب صاحب چونکہ مکہ کا چیف تھا وہ قاصد کیساتھ ابرحہ کے پاس گیا۔ جب ابرحہ نے عبدلمطلب کو دیکھا تو وہ بہت متاثر ہوا اور اختراما فورا اٹھ گیا۔ عبدالمطلب صاحب نے کہا کہ میرے اونٹ ابرحہ نے کہا اتنی چھوٹی بات میں تو سمجھ رہا تھا تم مجھ سے بیت اللہ کو بچانے کیلئے ائے ہو۔ عبدالمطلب صاحب نے کہا کہ بیت اللہ کا اپنا مالک ہیں جب عبدالمطلب نے لشکر کو دیکھا تو واپس آکر اہل مکہ والوں کو کہاں کہ اپنے ساتھ ضرورت کا سامان لے کر پہاڑوں کا رہ کرو کیونکہ ابرحہ کیساتھ بہت بڑا لشکر ہے وہ تو سب کچھ ختم کر دیں گا کیونکہ اہل مکہ بغیر اسلحہ کے ان کے ساتھ مقابلہ کیسے کریں گا۔لہذا پہاڑوں پر جانے سے پہلے مکہ کے سرداروں نے کہا کہ پہلے ہم بیت اللہ کو جائیں گے اور اللہ تعالیٰ سے اپکا گھر ہے اور ہم اسکو آپکے خوالہ کرنے والے ہیں آپ ہی اسکے خفاظت کروں گے۔
دوسرے دن اَبرحہ (چونکہ عیسائی تھا) مجدلیفہ کیساتھ ایک ویلی ہے وادی محصب وہاں پر اس کا لشکر نے پڑھاو کیا تھا۔ لہذا اس نے لشکر والوں کو کہا کہ جاؤ حملہ کرو لیکن ہاتھیوں کو پہلے بھیج دو تاکہ بلڈنگ کو پہلے ختم کر دیں(بیت اللہ) اور خود وہاں رہ گیا کیو نکہ انکو پتہ تھا کہ something will happen کچھ تو ہونے والا ہے۔لہذا جب انہوں نے ہاتھیوں کو وار کرنے کیلئے پہلے بھیج دیا تو پرندوں / مرغیوں کا جنڈ،جماعت اور گروپس آکر انکے ساتھ منہ میں پتھر تھیں انکو اس پر پھیکنا شروع کر دیا۔ اور لشکر میں کوئی بھی بچ نہیں گیا اور اَبرحہ کو اللہ تعالیٰ نے بطور عبرت بچا لیا۔ اَبرحہ کی طرف دو آدمی لشکر سے اکر کہا کہ آفت اگیا دو پرندے انکے پیچے اکر دونوں پر پتھر پھینک کر ہلاک کیا اور اتنی ذور کیساتھ وہ دونوں مر گیں کہ ابرحہ کا دماغ پھٹ گیا(کام چھوڑ دیا) اور وہ اپنے پیشاب اور غلاضت کو اٹھا کر اپنے سر پر رکھ دیتا۔
محمدﷺ اس واقع سے 83 دن بعد اس دنیا میں تشریف فرما ہوئیں۔
اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سورۃ الفیل میں کرتا ہے۔
ترجمہ۔۔۔۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے ہاتھی والوں کیساتھ کیسا معاملا کیا؟
کیا اس نے ان الوگوں کی ساری چالیں بیکار نہیں کردی تھیں؟
اور ان پر غول کے غول پرندے چھوڑ دے تھے۔
جو ان پر پکی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے۔
چنانچہ انہیں ایسا کر ڈالا جیسے کھایا ہو بھوسا۔
موضوع۔۔ جب اللہ تعالیٰ کے دین کا کوئی بھی مخافظ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ خود خفاظت کرتا ہے بطور سنگین عذاب۔ اور اگر کوئی خفاظت کا دعویدار ہو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ خفاظت کرو گے اور میں اپکے مدد کرونگا۔
✅ @ikramghani, I gave you an upvote on your first post! Please give me a follow and I will give you a follow in return!
Please also take a moment to read this post regarding bad behavior on Steemit.