حضرت امام حسین علیہ السلام کی زندگی
شروع کرتی ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے مجھے امید ہے کہ میری سب بہنیں اور بھائی اپنی فیملی اور بچوں کے ساتھ خوش اور خرم زندگی بسر کر رہے ہوں گے
میرا آج کا موضوع حضرت امام حسین علیہ السلام کی زندگی کے بارے میں ہے
سیّد امام حسینؓ کی ولادت مبارک 5شعبان 4 ہجری کو
مدینہ میں ہوئی۔ رسول اللہﷺ نے آپ کے کان میں اذان دی منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالااور آپ کے لیے دعا فرمائی۔ آپﷺ نے ساتویں دن اپنے نواسے کا نام حسینؓ رکھا۔ عقیقہ کیا اور سر کے بال منڈوا کر ان کے برابر چاندی صدقہ کی۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جبرائیل ؑ نے خبر دی کہ میرا بیٹا حسینؓ میرے بعد ”ارض طف“ میں شہید کیا جائے گا۔ جبرائیل ؑ نے مجھے اس مقام کی مٹی لاکر دی ہے اور بتایا ہے کہ یہ زمین (حسینؓ) کی شہادت گاہ بنے گی۔ ایک روایت کے مطابق ایک بار رسول اللہﷺ نے سیّدنا حسینؓ کے رونے کی آواز سنی تو ان کی والدہ سے کہا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حسینؓ کے رونے کی آواز مجھے غمگین کرتی ہے۔سیّدنا حسینؓ ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار ہوکر جارہے تھے، راستے میں غرباءکی ایک جماعت نظر آئی جو زمین پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ انہوں نے کہا فرزند رسولﷺ ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیے۔ آپ گھوڑے سے اُترے اور غرباءکے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا اور اس موقع پر فرمایا اللہ تکبّر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ سیّدنا حسینؓ نے ان غرباءکو اپنے کھانے کی دعوت دی۔حضرت حسنؓ کی ولادت کے بعد معاویہؓ نے خلفائے راشدین کے برعکس خلافت کو وراثت بنا دیا اور اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ بنالیا اور لوگوں کو 49 ہجری میں یزید کی بیعت کے لیے بلایا، مسلمانوں نے اس فیصلے کو ناپسند کیا اور سخت اختلاف کا اظہار کیا۔ لوگوں کو یزید کے مشاغل کا علم تھا، ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اگرچہ یزید میں سخاوت، مروت، فصاحت بیانی اور شعر گوئی جیسی خوبیاں بھی تھیں مگر وہ شراب نوشی کرتا۔ ناچ گانے میں دلچسپی لیتا، اس نے اپنے محل میں ناچ گانے والیاں اور کتے رکھے ہوئے تھے اس کے بعض اعمال فاسقانہ تھے۔ حضرت امام حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا۔ یزید نے حضرت امام حسینؓ پر بیعت کے لیے دباﺅ ڈالا مگر انہوں نے دباﺅ قبول کرنے سے انکار کیا۔ آپ نے جو عزم اختیار کیا اس پر ثابت قدم رہے اور مکہ تشریف لے گئے۔ حضرت امام حسینؓ کے نام عراق سے سینکڑوں خطوط آئے جن میں تحریر تھا کہ آپ کے ساتھ ایک لاکھ
آدمی ہیں آپ جلد عراق آجائیں تاکہ لوگ آپ سے بیعت لیں
حضرت امام حسینؓ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیلؓ کو حالات کا جائزہ لینے کے لیے عراق بھیجا۔ کوفہ کے لوگ مسلم بن عقیلؓ سے بڑے اخلاق سے پیش آئے اور قسم کھائی کہ اگر حضرت امام حسین ؓ کوفہ آجائیں تو وہ دل و جان سے آپ کی مدد کریں گے۔ ایک روایت کے مطابق 18 ہزار لوگوں نے مسلم بن عقیلؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ مسلم بن عقیلؓ نے حضرت امام حسینؓ کو خط لکھا کہ حالات سازگار ہیں، وہ کوفہ تشریف لے آئیں۔ خط ملنے کے بعد حضرت امام حسینؓ کوفہ روانہ ہوئے۔ یزید نے کوفہ کے گورنر نعمان بن بشیر کو معزول کردیا کیونکہ وہ حضرت امام حسینؓ کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ عبداللہ ابن زیاد سمیّہ کو کوفے کا گورنر مقرر کیا گیا۔ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حضرت امام حسینؓ کے پاس بھیجا اور ان کو یزید کی بیعت کا مشورہ دیا۔ حضرت امام حسینؓ نے فرمایا کہ مجھے واپس جانے دو، یزید کے پاس لے چلو تاکہ اس سے مکالمہ کروں اگر دونوں شرطیں منظور نہ ہوں تو ترکوں کی جانب جانے دو تاکہ ان کے خلاف جہاد کرکے شہادت کا رتبہ حاصل کروں۔ حضرت امام حسینؓ کا پیغام ابن زیاد کو پہنچایا گیا مگر اس نے اپنے ساتھیوں کے مشورے کے بعد تینوں شرطیں مسترد کردیں اور بیعت کا مطالبہ کیا۔ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حکم دیا کہ حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کو پانی لینے سے روک دیا جائے۔ حضرت امام حسینؓ نے جب دیکھا کہ وہ محاصرے میں آگئے ہیں اور ابن زیاد کے ارادے درست نہیں ہیں تو آپ نے نویں محرم کو چراغ گل کردیے اور خطبہ دیا اور اپنے عزیز و اقارب اور رفقاءسے کہا
کہ یزید کو صرف ان سے دشمنی ہے لہٰذا جو لوگ واپس جانا چاہیں وہ چلے جائیں۔ قافلے میں شامل سب لوگوں نے واپس جانے سے انکار کردیا اور آخری دم تک حضرت امام حسینؓ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ سیّدنا حسینؓ نے اندھیرا اس لیے کیا تاکہ جو لوگ واپس جانا چاہیں ان کو ندامت نہ ہو۔ حضرت امام حسینؓ کے ساتھ بہتر آدمی تھے۔ کربلا کے میدان میں انسانی تاریخ کا المناک سانحہ پیش آیا۔ دسویں محرم عاشورہ کے روز حضرت امام حسینؓ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور قرآن ہاتھ میں لے کر خطبہ ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ رسول اللہﷺ کے نواسے اور امیرالمومنین حضرت علیؓ کے فرزند ہیں۔ یزیدی فوج پر ان باتوں کا کچھ اثر نہ ہوا اور شمر نے قافلہ حسینؓ پر حملہ کردیا۔ حضرت امام حسینؓ کے رفقاءباری باری لڑتے ہوئے شہید ہوتے گئے اور آخر کار حضرت امام حسینؓ کو بھی محرم کے مہینے 61 ہجری یوم عاشور (جمعہ) کو شہید کردیا گیا اس وقت آپ کی عمرمبارک 54 سال تھی....
معاویہؓ نے یزید کو نصیحت کی کہ حسینؓ اگر بیعت سے انکار کریں تو درگزر سے کام لینا مگر تحمل برداشت رواداری اس کی فطرت کے خلاف تھی۔ اس نے وہ ظلم و ستم کئے جن کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ۔زہیر ایک سنی تھا۔ اس نے امام حسین ؓ کے پیغام کو سنا تو بیوی بچوں کو چھوڑ کر قافلہ حسینؓ میں شامل ہو گیا۔ کربلا کے میدان میں جب حسینؓ پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی تو زہیر حسینؓ کی ڈھال بن گئے اور شہید ہو گئے۔ حسینؓ پر کسی کی اجارہ داری نہیں وہ بلا تفریق اور بلا امتیاز سب کے محبوب ہیں۔ اہل سنت کے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے فرمایا۔”جس نے بھی امام حسینؓ کو شہید کیا ان کے قتل میں مدد کی یا ان کے قتل سے راضی ہوا اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ۔ اللہ تعالیٰ نہ اُن کے عذاب کو دور کرے گا اور نہ اس کا عوض قبول کرے گا“۔شہادت امام حسینؓ کا سبق یہ ہے
کہ نیکی کی تبلیغ کرنا اور برائی سے روکنا ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے۔ جھوٹ اور سچ کی جنگ میں افرادی قلت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ سچ کے علم بردار اگر تعداد میں کم بھی ہوں تو جھوٹ کا مقابلہ ان کا فرض ہے۔ جنگ بدر اور جنگ کربلا میں یہ بھی ایک قدر مشترک ہے کہ تعداد کی کمی حق کے راستے میں حائل نہ ہوئی۔ حضرت امام حسینؓ کا یزید کے خلاف جہاد مذہبی تعصب یا فرقہ واریت کی بناءپر نہ تھا بلکہ اسلام کے تحفظ کے لیے تھا۔ مسلمان کردار کے بحران سے گزررہے ہیں۔ اللہ کے پیارے نبیﷺ خلفائے راشدین اور امام حسینؓ نے عملی کردار کے جو روشن نمونے پیش کیے ہم ان پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں مگر اپنے پسندیدہ خلفاءصحابہؓ اور اماموں کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی ہدایت فرمائے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے....
بہت اچھی پوسٹ لکھی ہے آپ نے