میرا آج کا عنوان ہے"بچوں کی تربیت" @makniazi 18-09-2021

in Urdu Community3 years ago

بچوں کی تربیت

Image_1631963535.jpg

ہمیشہ سننے میں آتا ہے کہ بچے بدتمیز ہو گئے ہیں؟؟؟
کسی کی بات نہیں سنتے؟؟؟
مگر کیا کبھی آپ نے انکی ایموشنل نیڈز یعنی جذباتی ضروریات کو سمجھنے کی یا ان کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے؟
بیشتر لوگوں کو تو اس بارے میں علم ہی نہیں ہے۔ چلیں کوئی بات نہیں ہم بتائے دیتے ہیں۔
بنیادی طور پر بچے کی اچھی ذہنی نشونما کے لیے مندرجہ ذیل چھ باتیں بہت اہم ہیں۔
خاندان سے غیر مشروط محبت
2۔** خود اعتمادی**
دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع
اساتذہ کی حوصلہ افزائی اور مناسب رہنمائی
محفوظ ماحول
نظم و ضبط
ایک ایک کرکے ان سب پر بات کی جائے گی۔ آج کی یہ تحریر خاندان سے غیر مشروط محبت پر مبنی ہے۔
گھر میں پیدا ہونے والا پہلا بچہ نا صرف ماں باپ بلکہ دادا، دادی سمیت گھر بھر کا لاڈلا ہوتا ہے۔
مگر یہ کیا۔۔۔
دوسرا بچہ آتے ہی بڑے بچے کو ایک دم سے الگ بلکہ اکیلا کر دیا جاتا ہے۔ جو بچہ سب کا پیار اور لاڈ اٹھوانے کا عادی ہوتا ہے۔ اسے سب ایکدم بھول جاتے ہیں۔
جی ہاں۔۔۔
اور ایک نئے آنے والے بچے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں. اس کو اٹھاتے ہیں۔ ٹائم دیتے ہیں۔ ماں کی تو چلو مجبوری ہوتی ہے مگر باقی سب بھی نئے بچے کی طرف توجہ مبذول کر لیتے ہیں۔
اس طرح بڑا بچہ خود کو اکیلا تصور کرنے لگتا ہے. ایک طرف تو ماں کو شیئر کرنا پڑتا ہے۔ اوپر سے باقی سب کی بھی نگاہوں کا مرکز آنے والا چھوٹا بچہ ہوتا ہے۔
وہ بچہ ہونے کی وجہ سے اس ساری صورت حال کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ ضدی اور سخت چڑچڑا ہو جاتا ہے اور بات بات پر رونا شروع کر دیتا ہے۔
عام طور پر بچے کے ضد کرنے پر اسے ڈانٹ ڈپٹ کر یا مار کر چپ کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پیار کا عادی بچہ آپ کا یہ روپ دیکھ کر پہلے تو پریشان ہو جاتا ہے اور پھر بدتمیزی سے اور لڑ جھگڑ کر اپنی بات منوانا شروع کر دیتا ہے۔ آہستہ آہستہ اس کا یہ رویہ پختہ ہوتا جاتا ہے۔ کیوں کہ اسے اپنے احساسات کا اظہار کرنا نہیں آتا اور سب کچھ اس کے دماغ کے اندر ہی جمع ہوتا رہتا ہے۔
آہستہ آہستہ یہ سب عادات اس کے اندر جڑیں مضبوط کرتی جاتی ہیں۔
اور پھر یہی بچہ "ضدی، خود سر اور بدتمیز" کہلاتا ہے۔
بچوں کے مسائل کو سمجھے بغیر ڈانٹ دیا جائے، خاموش کروا دیا جائے تو وہ اپنی بات منوانے کے لیے اپنی طرح سے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
یہاں ہی والدین غلطی کرتے ہیں۔ جب بچے ضد کریں، ان کو ڈانٹنے کی بجائے "پیار سے گلے لگائیں"۔
وہ روئیں گے، غصہ بھی کریں گے عین ممکن ہے آگے سے ضد بھی جاری رکھیں مگر آپ نے تحمل سے کام لینا ہے۔ ان کو آپ پیار کریں۔ گلے سے لگا کر آپ ان کو محبت کا احساس دلائیں۔ ان کو بتائیں کہ وہ آپ کے لئے کیا ہیں، کتنے اہم ہیں اور آپ ان سے کتنا پیار کرتے ہیں۔
اب یہاں یہ بات سامنے آتی ہے کہ بعض بچے بے جا لاڈ پیار سے بدتمیز ہو جاتے ہیں مگر ہم ان بیشتر بچوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو کہ سب کے گھروں میں موجود ہیں۔ جن کو اگنور کیا جاتا ہے۔
ایک بات یاد رکھیں بچوں کو گلے سے لگا کر پیار کرتے وقت فضول بحث اور نصیحتوں سے گریز کریں۔
"صرف ان کی اچھی باتیں کریں
اس سے ایک تو آپ کا بچہ آپ کا دوست بن جائے گا، آپ کو اپنا ہمدرد سمجھے گا اور دوسرا آپ بھی بہت خوش ہوں گے کیونکہ ہر چیز دو طرفہ ہوتی ہے احساسات بھی جذبات بھی۔
اپنے بچوں کو وقت دیں!
خواہ وہ کسی عمر میں بھی ہوں۔ انہیں پیار کریں، گلے لگائیں۔
آپ خود سوچیں
کتنا عرصہ ہوا آپ نے اپنے بچے کو گلے سے لگایا پیار کیا؟
چھوٹے بچوں کو تو اس قدر پیار کیا جاتا ہے کہ وہ تنگ پڑ جاتے ہیں اور بڑے بچوں کے لیے یہ چیز ممنوع کیوں ہو جاتی ہے۔ بچے کے احساسات وہی ہوتے ہیں فرق صرف عمر کا پڑتا ہے۔ والدین کے لیے تو وہ بچہ ہی ہے ناں۔ اسے بچہ ہی رہنے دیں۔ رویے اسے بڑا بنا دیتے ہیں۔
بچہ چاہے کسی عمر میں پہنچ جائے ماں باپ کے لمس کو ترستا ہے۔ والدین کا صرف ایک تعریفی جملہ اس کی ہمت بندھا دیتا ہے اور وہ پرسکون ہو جاتا ہے۔
آج آپ گن کر دن میں دو دفعہ اپنے بچے کو گلے سے لگا کر پیار کریں۔خواہ وہ کسی بھی عمر کا ہے۔پھر تعداد بڑھاتے جائیں۔
ان کو اچھے کام پر صرف سراہنے کی بجائے گلے سے لگا کر پیار کریں۔
اور پھر جو بھی سمجھانا ہو سمجھائیں۔ آپ دیکھیے گا کیسے ان کے دل موم ہوتے ہیں۔ وہ آپ کی بات سمجھنا شروع کر دیں گے۔
وہ آپ کے بچے ہیں انہیں آپ نے ہی ٹھیک کرنا ہے۔ ورنہ وہ کوئی اور غم گسار ڈھونڈ لیں گے جو کہ ان کے لئے مناسب نہ ہو گا۔
سائنس کے مطابق بھی جب آپ بچے کو پیار سے گلے لگاتے ہیں تو اس کے جسم میں خوشی کے مثبت احساسات جاگتے ہیں۔ جو کہ اس کی ساری منفی سوچوں پر حاوی ہو جاتے ہیں۔
بچہ تین اوقات میں سب سے زیادہ دھیان سے بات سنتا ہے۔ "کھانا کھاتے وقت، سوتے وقت اور سفر کے دوران"
ان اوقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا موقف انھیں سمجھائیں۔ جو باتیں ذہن نشین کروانی ہوں انھیں بار بار دہرائیں۔
بڑے بچوں کے ساتھ بھی ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے چند دن یہ عمل کر کے دیکھیں۔ وہ آپ کی تبدیلی پر حیران ضرور ہوں گے مگر اندر ہی اندر خوش بھی ہوں گے۔

ہم انتہائی مشکور ہیں
جناب یوسف ہارون خان
ملکی نمائندہ پاکستان
@yousafharoonkhan
اور
@rashid001
@jlufer @janemorane
@r2cornell
اور
@haseeb.asif.khan
کا مشکور
@makniazi

Sort:  
 3 years ago 

کمال کا آرٹیکل لکھا ہے انکل جی آپ نے آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں سٹیمیٹ پر کام جاری رکھیں

کیا کمال کاآرٹیکل تیار کیا ہے
اور ھمارے معاشرے کی سب سے بڑی ضرورت بھی یہی ہے

آپ نے بہت اچھا آرٹیکل لکھا ہے تر بیت کے بارے میں

بھائی جی آپ نے بہت اچھا آرٹیکل لکھا ہے۔👍

 3 years ago 

ماشاءاللہ آپ نے بہت اچھی معلومات فراہم کی ہے بچوں کی تربیت کے حوالے سے

 3 years ago 

آپ نے بہت اچھا آرٹیکل لکھا ہے

 3 years ago 

Mashalllah jnab ap nay bachon ki tarbeat ka bhot acha article likha hy good work Brother

 3 years ago 

آپ نے بہت اچھا آرٹیکل لکھا ہے

Coin Marketplace

STEEM 0.19
TRX 0.15
JST 0.029
BTC 63630.04
ETH 2656.44
USDT 1.00
SBD 2.81