The teacher never dies
ہمارے معاشرے میں استاد کا احترام آج سے چند سال پہلے ایسا ہوا کرتا تھا جیسے والدین کا۔ ہم نے ٹاٹ پر بھی بیٹھ کر پڑھا، ماریں بھی کھائی، لیکن وہی کام بھی آئی ٗاس کی وجہ یہ تھی کہ بچے کی تربیت تو والدین کی گود سے شروع ہوجایا کرتی ہے لیکن بچے کو عقل وشعور اور عِلم ملتا ہے اساتذہ کے پاس سے۔ جو قومیں اپنے اساتذہ کا احترام نہیں کرتیں کبھی ترقی نہیں کرسکتیں۔ہمارے دینی استاد نبی پاک ﷺ ہیں اور ہمیں نبی پاک کی ﷺ کی سُنت پہ عمل کرتے ہوئے اپنے اساتذہ کا احترام کرنا چاہیئے۔ لیکن لمحہ فکریہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل اپنے اساتذہ کو وہ عزت و احترام نہیں دے رہی جو ان کا حق ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حضور ﷺ کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔اسلامی نظام تعلیم میں استاد کو مرکزی مقام حاصل ہے معلم کی ذات ہی علمی ارتقاء سے وابستہ ہے،نئی نسل کے مستقبل کی تعمیر کے سلسلے میں استاد کی مثال ایک کسان اور باغبان کی سی ہے۔
حضرت علی ؓنے فرمایا!”جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اس کا غلام ہوں۔“وہ چاہے مجھے بیچے۔آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے۔“ ایک دوسرے موقعے پر فرماتے ہیں کہ”عالم کا حق یہ ہے کہ اس کے آگے نہ بیٹھو اور ضرورت پیش آئے تو سب سے پہلے اس کی خدمت کے لئے کھڑے ہو جاؤ۔“مگر آج ہم اساتذہ کے احترام میں کھڑا ہونا تو دور ان سے آگے چلنا انکے برابر بیٹھنے کو فخر سمجھتے ہیں۔علامہ محمداقبال کے یہ الفاظ معلم کی عظمت و اہمیت کے عکاس ہیں۔”استاد در اصل قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بناناانہی کے سپرد ہے۔سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت میں سب سے زیادہ بیش قیمت ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی تہذیب و تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی ڈور انکے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ ان کی محنت ہے۔“ہنری کا کہناہے: ”مُعلم فروغ علم کا ذریعہ ہے لیکن اس کے علم سے فائدہ و ہ نیک بخت اُٹھاتے ہیں جن کے سینے ادب و احترام کی نعمت سے مالا مال ہوں ”۔ کاش ہم ان ہستیوں کے احترام کو جان سکیں کہ آج ہم جو ہیں وہ اپنے استاد،اپنے مُعلم و محسن کی وجہ سے ہیں۔