A National issue

in #education6 years ago

میری طرح ہم میں سے اکثر نے بچپن میں یہ ڈائیلاگز سکول میں سُنے ہوں گے۔ماسٹرصاحب منڈا پڑھنا چائی دا A۔جنی مرضی پھینٹی لاؤ۔بس سمجھ لو گوشت تواڈا اور ھڈیاں ساڈیاں۔آج بھی آپ کسی گیدرنگ میں بیٹھ جائیں اور اس ٹاپک پہ بات ہو تو اکثر لوگ یہ کہیں گے کہ بس جی ہمیں تو ماسٹرصاحب نے ڈنڈے مار مار کر پڑھایا ورنہ ہم کس قابل تھے؟فیس بُک پہ بھی لوگ اپنی تعلیم کا کریڈٹ ماسٹرصاحب کے مولابخش کو دیتے ہیں۔
ہمارے ذھنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ جب تک سٹوڈنٹ پہ تشدد ناں کیا جائے تب تک وہ اچھا نہیں پڑھ سکتا۔اسے کیا کہوں؟
جاہلانہ،احمقانہ سوچ و اپروچ۔مطلب اچھی پڑھائی کے لئے سٹوڈنٹ پہ تشدد لازم ہے؟
غلط ہے یہ۔ذھنی پسماندہ اور دولےشاہ اپروچ ہے یہ۔اس دنیا میں بہت ساری قومیں ہیں جو علم میں ہم سے آگے ہیں اور وہاں طالب علم پہ تشدد نہیں کیا جاتا۔اصل میں تو تشدد کئی سٹوڈنٹس کو سکول و تعلیم سے ہی متنفر کرا دیتا ہے۔میرے اپنے بچپن کے کئی کلاس فیلو پانچویں و آٹھویں کلاس سے پہلے پہلے سکول چھوڑ گئے تھے۔وجہ ٹیچروں کا جسمانی تشدد تھا۔
یہ جسمانی تشدد کالجز اور یونیورسٹیز میں ذھنی و زبانی تشدد کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔پروفیسر سرجن ریاض ڈب صاحب وارڈ میں آ گئے ہیں۔ھالا لا لا لا۔ھاؤ ہو۔آدم بو میں تیرا پیو۔نس جاؤ۔پرے ہو جاؤ۔جہیڑا ہتھ چڑھ گیا اودی خیر نئیں۔ڈر جاؤ۔سپ سُنگھا لو اپنے آپ نوں۔ایسا پاکستان کے علاوہ پاکستان جیسے ملکوں میں ہوتا ہو گا؟مہذب ملکوں میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی۔یہ رویہ ٹیچر اور سٹوڈنٹ کے درمیان خلیج پیدا کرتا ہے۔مہذب ملکوں میں بچے کے
سٹوڈنٹ کے
بھی رائٹس ہیں۔آپ ان پہ جسمانی،زبانی،ذھنی تشدد نہیں کر سکتے۔نو۔ناٹ ایٹ آل۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو بالغوں کے حقوق نہیں پتہ تو بچوں و سٹوڈنٹس کے حقوق خاک پتہ ہوں گے؟یہاں والدین بچے کے مالک بن جاتے ہیں حالانکہ والدین کا بنیادی کام بچوں کی اچھی کفالت کرنا ہے۔اس کفالت میں اچھی خوراک،اچھی تعلیم و تربیت و تفریح بنیادی چیزیں ہیں مگر ہم میں سے زیادہ تر لوگ بچوں کے مختارکُل بنے ہوتے ہیں۔
اینی ھاؤ بیک ٹو دا ٹاپک۔
بہت سارے پڑھے لکھے لوگ بھی ابھی تک اسی فینامینا میں رہ رہے ہیں اور اسے ہی شعوری و لاشعوری طور پہ پسند و پریکٹس کرتے ہیں۔بڑے فخر سے لکھا جاتا ہے کہ پروفیسرصاحب کی ٹیچنگ سکلز بہت اچھی تھیں اور ان کی موجودگی میں ہماری جان نکلتی تھی۔ارے بھئی جان نکلنا کونسی فخر کی بات ہے؟اس کی مذمت کرنے کی بجائے اسے بڑے فخر سے بیان کیا جا رہا ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ پروفیسرصاحب وارڈ میں ہوں تو سارے جونیئرز خوش ہوں۔اُن کی موجودگی میں کمفرٹیبل محسوس کریں۔فریلی جا کر اُن سے ہر بات پوچھیں۔ٹیچر ناں ہوا جلاد ہی ہو گیا۔ڈر جاؤ۔ڈر جاؤ۔اللہ ہی جانے ہم اس تھنکنگ پیٹرن سے باہر کب آئیں گے؟
حکومت کو چاھیئے کہ مریضوں اور جونیئرز سے ھینڈلنگ کو نصاب کا حصہ بنائے۔جب تک نصاب کا حصہ نہیں بنتا تب تک بلکہ اُس کے بعد بھی اس پہ بات کیجیئے۔ایک دوسرے کو آگہی دیجیئے۔خود اس غلط خول سے باہر آئیے۔یہ گروپ بھی اچھا فورم ہے۔اس پہ بھی بات کیجیئے۔تبدیلی ابھی بہت دور ہے۔ابھی صرف اس پہ بات شروع ہو جائے۔اتنا کافی ہے۔ہم بُھگت چکے۔آج ہمارے جونیئرز یہ سب بھگت رہے ہیں تو کل کلاں کو ہمارے اپنے بچے بھی یہ سب فیس کریں گے۔اس معاشرے،اپنے کالج و اپنی کمیونٹی کی بہتری کے لئے حصہ ڈالیے۔یہ متشدد رویہ غلط ہے۔ہم سے زیادہ پڑھی لکھی قومیں یہ ثابت کر چکی ہیں۔
یہ پوسٹ میں نے ڈاکٹروں کے گروپ میں شیئر کی تھی۔میرے خیال میں اس میں ایسا بہت سارا مواد ہے جو پبلکلی بھی شیئر کیا جا سکتا ہے۔اس لئے من و عن اپنی وال پہ لگا دی ہے۔میرے خیال میں پاکستان کے تقریبا تمام تعلیمی اداروں میں کم و بیش ایسا ہی ماحول ہے۔میں مدارس کا پڑھا تو نہی ہوں لیکن سُنا ہے وہاں بھی یہی صورتحال ہے
downloaded (1).jpg

Sort:  

@resteemator is a new bot casting votes for its followers. Follow @resteemator and vote this comment to increase your chance to be voted in the future!

Coin Marketplace

STEEM 0.20
TRX 0.13
JST 0.030
BTC 66779.99
ETH 3503.24
USDT 1.00
SBD 2.70